ہم شرمندہ ہیں
(تحریر:شیخ عاصم)
سناٹے سے خوف آنا ایک فطری عمل ہے مگر سناٹا موت کا ہو تو انسان جیتے جی خوف سے ہی مر جاتا ہے۔زرا سوچئیے کہ آس پاس صرف لاشیں ہی لاشیں ہوں اور آپ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ گھر کے بچے کچے حصے میں چھپ کر گولیوں اور دھماکوں کی آواز کے خوف سے کانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوں تو آپ پر کیا بیتے گی
زرا محسوس تو کر کے دیکھیں کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے پیارے خون میں لت پت پڑے ہوں اور آپ باقی زندہ بچ جانے والے پیاروں کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں
زرا اس بےبسی کو محسوس تو کر کے دیکھیں کہ آپکے پاس نا کھانے کو ہو نا پینے کو ،ہر طرف سے بس موت ہی نظر آرہی ہو، ایسا ہی بلکل اس وقت ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کا فلسطیںن میں حال ہے۔ہر دوسرے شخص کا غم پہلے سے بڑا ہے،کسی کا بچہ ، کسی کے والدین ،کسی کے بہن بھائی تو کسی کا پورا خاندان شہید،
دن بھر بمباری کے بعد رات کے وقت جہاں موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا وہیں پر مسجد کے سپیکر سے روتے ہوئے آواز آتی ہے کہ اے اللّہ! یہاں کوئی نہیں بچا بس تو ہے۔ اے اللّہ ہماری مدد فرما،ہمیں سرخرو فرما۔
فلسطینیوں کی غلطی صرف اتنی ہے کہ وہ اپنی سرزمین چھوڑنا نہیں چاھتے اور وہ چھوڑیں گے بھی نہیں۔وہ اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں مگر کافروں کے ظلم سے ڈر کے بھاگنے والے نہیں۔
ان کے ایمان کی طاقت کا اندازہ لگائیں اور پھر اپنی طرف متوجہ ہوں۔اپنے گریبان میں جھانکیں۔دیکھیں آپکا اپنا ایمان کس مقام پر ہے۔اللہ ان کی مدد فرما رہا ہے اور آگے بھی مدد فرمائے گا لیکن آپنے کیا کیا اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لئے۔میں آپ سب سے مخاطب ہو کر یہ درخواست کرتا ہوں کے آپ اپنے اپنے حصے کی شمولیت کریں چاہے وہ جس مرضی طریقے سے ہو۔اس تحریر کو لکھنے کا مقصد مجھے اپنے حصے کی شمولیت کرنا ہے اور آپ لوگوں کو ایک تجویز بھی دینا چاہتا ہوں
صدقہ مشکلات کو دور کرتا ہے ۔یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے سب واقف ہیں۔اس بے بسی کے عالم میں اگر اجتماعی یا انفرادی طور پر سب مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق فلسطین کے نام کا صدقہ دیں تو انشاء اللّہ فلسطینیوں کی مشکلات میں کمی آئے گی ۔اگر متفق ہوں تو آگے ضرور شئیر کیجئے گا۔
0 Comments