جریان پیام ۔ القلم جنت


لڑکپن ایسی عمر ہوتی ہے جب انسان شوخ چنچل ہوتا ہے. دنیا میں ایک شخص حسین وجمیل ھوتا ہے اور وہ شخص آئینے میں نظر آتا ہے. جوش ولولہ اس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے کہ دنیا فتح کرنے کو انسان نکلنا چاہتا ہے. تقریبا یہ ہر ایک کی کہانی ہے. شاید میری بھی یہی داستان تھی. لیکن اس کے ساتھ ساتھ عادت داشتن مجھ میں ایک اور رونما ہوئی وہ تھی سیکھنے کی. اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنی زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ بڑی عمر کے حلقہ احباب میں گزارا. میرے گھر میں بھی کوئی ہم عمر کا نہ تھا. زیادہ تر حلقه دوستان بھی میری عمر سے رسیدہ تھے. وقت نے کروٹ لی اور مجھے سیکھنے کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات اور انسانی سائیکالوجی بھی پڑھنے کا شوق بیدار ہوا جو میں اکثر اوقات لوگوں کے رویے پڑھنے کے بعد حاصل کرتی. میں مشاہدے کی کاہل تھی اور مراقبت و مواظبت کو اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ ماننے لگی تھی. لیکن پھر بھی ہر انسان کو ہر مقام پر مختلف پایا.. کسی کو اپنی کہانی میں ہیرو اور دوسروں کی کہانی میں ولن پایا. کوئی دوسروں کے لیے ولن اور میرے لیے ہیرو تھا. میں نے دیکھا کہ دنیا میں کسی بھی شخص کے متعلق ایک خاص قسم کا نقطہ نظر قائم نہیں کیا جا سکتا. انسان ہر بار پہلے سے زیادہ متفاوت رکھتے ہیں. زندگی میں ایسا مقام آیا کہ اپنے اردگرد کے احباب کی گفتگو اک طرح محسوس ہونے لگی. جیسے مجھے پہلے سے معلوم ہے کہ انہوں نے  کیا کہنا ہے اور کیا کہنا چاہتے ہیں. میرے اندر سیکھنے کی جستجو  اب ختم ہو چکی تھی. اب میں رک جانا چاہتی تھی نہ کوئی خواہش تھی اور نہ کوئی تمنا..

خیر وقت ایک سا نہیں رہتا, ایسا میں نے بہت سی کتابوں میں پڑھا ہے. جس دور سے گزر رہی تھی وہ مشکل ترین وقت تھا. مجھے حوصلہ نہیں مل رہا تھا. میرا دماغ کسی بھی قسم کے قرار کا متمنی نہ تھا . تکلیف کی شدت بے چینی اور بے قراری کی وجہ سے روز بروز بڑھتی جارہی تھی لیکن قدرت نے بہت سے کرم کیے انسانوں پر .. اسی طرح ایک نوازش مجھ پر بھی ہوئی, وہ تھی' پیغامات کی مہربانی'..

مجھے یوں  معلوم ہوا جیسے مجھے ہر انسان کی آواز میں قدرت کچھ سمجھانا چاہتی ہے کوئی سندیسہ, کوئی میسج کوئی پیام دے رہی ہے. اور شاید ہم میں سے بہت سے انسان ہیں جن کو قدرت نشانی دیتی ہے یا پھر دوسرے انسانوں کے الفاظ کے ذریعے میسجز... جیسے پوری کائنات میں رب دوسروں کے ذریعے مجھ سے کلام کر رہا ہے اور انسانوں کے الفاظ میرے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں. اگر سائیکالوجی پڑھی جائے تو یہ سب سٹیٹ آف مائنڈ یعنی کہ دماغی کیفیت کے سوا اور کچھ نہیں مگر سکون کی غرض سے یقین کا سفر تھا.

پھر مجھے معلوم ہوا کہ کبھی کبھی آوازوں کو سننا بھی اتنا ضروری ہوتا ہے جتنا بولنا... میں نے ارد گرد اور دور حاضر کے ولیوں سے بھی پیغام سنا اور شیطانوں سے بھی ...

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 نوٹ: کالم نویس/لکھاری  سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں

Post a Comment

0 Comments