شاید یہ دنیا کسی اور سیارے کی جہنم ہے


 شاید یہ دنیا کسی اور سیارے کی جہنم ہے


آج کل ہر کسی کی زبان پر ایک ہی دعا ہے کے اللہ تعالی حکمرانوں کو ہدایت دے،اکثریت کی بد دعا کہ برباد کرے۔مہنگائی کا رونا،زندگی بسر کرنے میں بہت دشواری ہو رہی ہے مگر ، کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہمیں بھی ہدایت دے۔حضرات !
جیسی عوام ویسے حکمران
سب نے یہ جملہ اتنی بار سنا ہے کہ اس کی اہمیت ہی ختم ہو چکی ہے، سوچا یاد دلاتا جاوں کہ حالات ہمیشہ ایک سے ہی رہتے ہیں،کہانی شروع سے ایک ہی ہے بس کردار بدلتے رہتے ہیں،نیا چہرہ آتا ہے اور پھر نیا پاکستان بن جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی تعلیم اتنی ہوتی ہے کہ عوام اتنی تعلیم والے لڑکے کو رشتہ دینا پسند نہیں کرتے مگر ان کے لیئے لڑتے ،جھگڑتے اور اکثر جان بھی دے دیتے ہیں۔اتنی سمجھدار عوام ہے کہ آنکھوں دیکھا نگل لیتی ہے۔مرشد نے جو کہا سر آنکھوں پر۔آخر کیوں؟ کیونکہ جس انسان کو اپنے اگلے لمحے کا پتا نہیں کہ وہ زندہ بھی رہے گا کے نہیں وہ اس حکمران سے اپنی جان و مال کی حفاظت کی لالچ رکھتا ہے،اس کی ہر غلط بات کا ساتھ دیتا ہے کہ کل اس سے کام نکلوانا ہے۔اس لالچ میں وہ ایسے دلدل میں پھنس جاتا ہے کہ نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے،

واقف ہوں بہت خوب اس دنیا کی فطرت سے
بہت چاہتے ہیں لوگ مگر ضرورت کی حد تک

حضرات چھوڑیں حکمرانوں کو ،ذرا اپنے گریبانوں میں تو جھانک کر دیکھیں ، تاجروں کی ذخیرہ اندوزی، ادھار لے کر واپسی کو گناہ سمجھنا،دوسروں کا حق مارنا،لالچ اور شارٹکٹ ۔مطلب کی وفاداریاں، آپکے نہایت سبق آموز ڈرامے ، تدریسی ادارے بنے فحاشی اور منشیات کے اڈے، انصاف کا عمل،ٹرانسپورٹ کا نظام ،سرکاری دفتر،ہسپتال۔ جناب عالی ان سب جگہوں پر کوئی خلائی مخلوق نہیں آپ اور میرے جیسی عوام ہی پائی جاتی ہے۔آپ اور میں خود برے ہیں،دوسروں کو کیا کہنا۔حکمران بلکل ٹھیک ہیں ،ہم عوام ہی اس لائق ہیں۔توپوں کی سلامی پیش خدمت ہےاس عوام کو جن کے پاس برداشت کا مادہ ہے ہی نہیں،پہلے لڑیں گے،پھر تھانے کچہری سے رابطہ کریں گے،رشوت دیں گے اور پھر کہیں گے کہ ہمیں انصاف ملتے ملتے زندگی ختم ھو گئی۔کاش کے اس ایک پل صبر کا دامن نا چھوڑا ہوتا۔
جب آپ ووٹ نہیں ڈالتے تو تبصرے ہی کیوں کرتے ہیں اور اگر ڈالتے ہیں تو حق پر کیوں نہیں بولتے، ایمان کی کمزوری آخر کیوں؟دوسروں کو نصیحت تو کرتے ہیں اپنے پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ہر انسان اس دنیا میں بے مقصد نہیں آیا۔میرے ہم وطنوں،اپنے آپ پر غور تو کرو،اپنا مقصد پہچانوں، آخر کیوں بنایا اللہ نے آپکو۔چاھے زندگی گناہوں میں گزر گئی ،اللہ سے توبہ کرو،اللہ بڑا بخشنے والا ہے۔اسے جیسا سوچو گے ویسا ہی پاو گے،اس لیئے اچھا سوچو۔لوگوں کے کام آو۔بہت آسان ہے،صرف اپنے آپکو بدلو دوسروں کی فکر چھوڑو ۔جب ہر بندہ خود کو گناہ سے بچائے گا،برائی خود بخود ختم ہو جائے گی۔دوسروں کو برا کہنے سے پہلے اپنے آپ پر لازمی غور کریں،اور پھر اگر آپ اچھائی کے لیئے جنگ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو مار دیا جائے، مگر آپ کی زات کے لیئے یقین مانیں یہ ایک اچھی موت ہے۔ آخر میں محترم انور مقصود صاحب کی ایک بہت پیاری دعا نقل کروں گا کہ،
"اے اللہ! ہماری حفاظت کرنے والوں سے ہماری حفاظت فرما"

Post a Comment

2 Comments

  1. Shabash baita,good analysis,logon ko hosh mein lanay k liyay,dose daitay raha karo.Allah aap kay qalam ko pur aser banaiy.

    ReplyDelete